کام کے سیاہی اور نام کے سپاہی

Posted by

ڈاکٹر انجم اُن ڈاکٹرز میں سے تھے جنہوں نے پیسے کمانے کو ہی اپنا مقصد زندگی بنایا ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر انجم پیسے کمانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے وہ سرکاری ہسپتال میں ملازم تھے مگر وہ وہاں بیٹھ کر مریضوں کو اپنے نجی ہسپتال بھجواتے رہتے تھے جہاں پر ان مریضوں کو مختلف ٹیسٹوں اور علاج کے نام پر خوب لوٹا جاتا تھا۔

ڈاکٹر صاحب کی دولت میں ہر دن اضافہ ہوتاجاتا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب ہسپتال کے ایم ایس بنے تو اُن کا یہ “ کاروبار “ اور بھی چمک اُٹھا تھا ۔ انہیں نہ تو اپنی سرکاری زمہ داریوں کی کوئی پرواہ تھی اور نہ ہی مریضوں سے کوئی ہمدردی انہیں تو صرف اور صرف پیسے کمانے سے غرض تھی ۔

مُلک میں کرونا وائرس کی وباء پھیلی تو حکومت نے کرونا وائرس کا شکار ہونے والے مریضوں کے علاج معالجہ کے لئے سرکاری ہسپتالوں میں خصوصی آئسولیشن وارڈز قائم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ڈاکٹر انجم نے بڑی بھاگ دوڑ کر کے اپنے ہسپتال کو بھی کرونا کے مریضوں کے علاج کے لئے خصوصی ہسپتال مختص کروا لیا تھا۔

اُن کا مقصد بس ایک ہی تھا کہ کرونا کے مریضوں کے علاج کے لئے ملنے والے فنڈز میں سے کمیشن کھانا، ہسپتال میں آئسولیشن وارڈ کی تیاری ، مریضوں کے داخلے ، اُن کے کرونا ٹیسٹ اور علاج معالجہ کے لئے ملنے والے فنڈز میں سے ڈاکٹر انجم نے خوب نوٹ بنائے تھے ۔

یہ ایک ایسا فنڈ تھا جس کا کوئ آڈٹ بھی نہ ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر انجم اپنی اس کامیابی پر پھولے نہ سما رہے تھے ۔ وہ اپنے آپ کو دُنیا کا عقل مند ترین شخص سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے مصیبت کی اس گھڑی میں بھی نوٹ کمانے کا موقع ضائع نہیں کیا تھا۔

ایک صبح ڈاکٹر انجم سو کر اُٹھے تو اُن کے جسم میں شدید درد تھی ، چیک کرنے پر پتہ چلا کہ انہیں بہت تیز بُخار بھی تھا۔ انہوں نے ہسپتال سے چُھٹی لی اور آرام کرنا شروع کردیا تھا۔جب اگلے تین دن بھی بُخار نہ اُترا اور جسم میں درد ختم نہ ہوا تو انہیں شدید تشویش ہوئ تھی۔

ڈاکٹر انجم کا کرونا ٹیسٹ کیا گیا جس کا رزلٹ پازیٹو آیا تھا۔ اس خبر نے ڈاکٹر انجم کو پریشان کر دیا تھا۔ دو دن بعد ڈاکٹر انجم کو سانس لینے میں شدید تکلیف ہونے پر وینٹی لیٹر پر ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔ ڈاکٹرز کی بھر پور کوششوں کے باوجود ڈاکٹر انجم کی جان بچائی نہ جا سکی تھی اُدھر ٹی وی پر خبر چل رہی تھی ” کرونا کےخلاف جنگ لڑنے والے صف اوّل کے ایک اور سپاہی ڈاکٹر انجم کرونا وائرس کا شکار ہو کر انتقال کر گئے”
تنویر بیتاب