کشش ثقل سے زیادہ طاقتور صرف کشش زن ہوتی ہے

Posted by

زمین کی کشش ثقل سے بھی زیادہ طاقتور  صرف“ کشش زن “ ہوتی ہے ۔ جی ہاں ! مرد کے لئے عورت کی کشش اس کائنات کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ عورت کے حسن و جمال سے متاثر ہونا مرد کی کمزوری ہے۔ حسین عورت اگر عقل مند بھی ہو تو وہ کشش زن کے اس ہتھیارکو ایسا استعمال کر سکتی ہے کہ طاقتور سے طاقتور مرد بھی چت ہو جائے ۔

آج سے کوئی بیس برس قبل ہم چار دوستوں نے مل کر ایک کمپنی بنائی۔ اس کمپنی میں میرے ، آصف اور زاہد کے بیس بیس فیصدشئیر تھے جبکہ حفیظ کے چالیس فیصد کے شئیر تھے ۔ حفیظ کو ہم نے چیف ایگزیکٹو بنا لیا ۔ آصف کی کنجوس فطرت کے پیش نظر اسے ڈائریکٹر فنانس بنا دیا گیا ۔ زاہد کو ہیومن ریسورس کا شعبہ دیا گیا ۔
مجھے سب دوستوں میں بھونکا سمجھا جاتا ہے اس لئے مجھے ڈائریکٹر مارکیٹنگ اینڈ سیلز بنا دیا گیا ۔ کمپنی کا کام بڑھا تو ہر شعبے میں سٹاف بڑھانے کا فیصلہ ہوا ۔ شعبہ مارکیٹنگ اور سیلز میں “ مینجر مارکیٹنگ و سیلز” رکھا جانا تھا ۔ امیدواروں کے انٹرویو میں لے رہا تھا ۔ اچانک دفتر کے چپڑاسی نے کسی کے لئے میرے دفتر کا دروازہ کھولا۔ کمرے میں داخل ہونے والی شخصیت ایک نوجوان لڑکی تھی۔ وہ ایک نازک اندام دبلی پتلی سی لڑکی تھی ۔ لمبا قد ، سرخی مائل سفید رنگ ، لمبے کھلے بال ، روشن بڑی بولتی آنکھیں ، رخسار ایسے جیسے ان سے آتش نکل رہی ہو۔ ہونٹ یوں جیسے کسی ماہر مصور نے بنائے ہوں ۔

ایک لمحے کے لئے تو مجھے کچھ سمجھ نہ آئی کہ وہ کون ہے؟ جب اس نے کمرے میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو مجھے پتہ چلا کہ وہ بھی ایک امیدوار کی حیثیت سے انٹرویو دینے آئی ہے ۔ دفتر کا نوجوان چپڑاسی اس کے حسن سے متاثر ہوکر اسے ویٹنگ ایریا میں بٹھانے کی بجائے سیدھا میرے پاس ہی لے آیا تھا۔ میں نے اس سے چند رسمی سے سوالات پوچھنے کے بعد تنخواہ کا پوچھا تو وہ بولی” سر ! تنخواہ آپ جو بھی دیں گے مجھے قبول ہو گی لیکن اس کا فیصلہ ایک ماہ بعد میری کارکردگی دیکھ کر کیجئیے گا “ میرا دل چاہا کہ ابھی اس کے انتخاب کا اعلان کر دوں اور باقی انٹرویو منسوخ کر دوں مگر ایسا کرنا دفتری قواعد کے خلاف تھا ۔

میں نے سب امیدواروں کے انٹرویو تو کئے مگر محض خانہ پوری کے لئے ۔ میں تو روبینہ کو مارکیٹنگ مینجر کے لئے منتخب کر چکا تھا ۔ اگلے دن اس کی رسمی ملاقات چیف ایگزیکٹوسے کروائی تو وہ بھی اسے دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے ۔

اگلے ایک مہینے کے اندر کمپنی کے کام میں چار گنا اضافہ ہوا ۔ مارکیٹنگ آفیسرز اس کے اشارے پر روبوٹس کی طرح کام کرتے تھے۔ اس کی تنخواہ طے کرنے کا مرحلہ آن پہنچا۔ میں نے اس کی تنخواہ 25000 روپے کی سفارش کر دی جبکہ میری اپنی تنخواہ 15000 روپے تھی۔ میرا خیال تھا کہ ڈائریکٹر فنانس جو سو پچاس کے بل پر بھی اعتراض لگاتا ہے کبھی بھی میری اس سفارش کو قبول نہ کرے گا مگر مجھے اس وقت حیرت کا شدید جھٹکا لگا جب اس نے میری سفارش کردہ تنخواہ من و عن مقرر کرنے کی سفارش کر دی کیونکہ فائل روبینہ خود ان کے پاس لے کر گئ تھی۔

چیف ایگزیکٹو جو ہماری ہر تجویز پر بچت کٹ لگاتے تھے انہوں نے بھی اس بڑی تنخواہ پر کوئ اعتراض نہ کیا کیونکہ روبینہ نے ان کے میز پر خود اپنے ہاتھ سے فائل رکھی تھی ۔ ۔ وہ ہمارے جس بھی کلائنٹ سے ملتی اسے اپنی بات منوا کر ہی اُٹھتی تھی ۔ شہر کے بڑے بڑے کاروباری ادارے اب ہماری کمپنی کی خدمات سے استعفادہ کرتے تھے ۔ بڑی بڑی کمپنیوں کے جن چیف ایگزیکٹو ز اور چئیر مینز سے ہمیں مہینوں ملاقات کا وقت نہ ملتا تھا روبینہ کی ایک فون کال پر وہ خود ہمارے دفتر چلے آتے تھے ۔

حسن صورت کے ساتھ ساتھ روبینہ کو گفتگو کا فن بھی خوب آتا تھا ۔ اس کے لفظ مخاطب پر جادو کی طرح اثر کرتے تھے ۔ دفتر میں اس نے زاہد سے مراسم بڑھنا شروع کئے۔ اکثر اس کے کمرے میں پائیجاتی ۔ لنچ بھی وہ دونوں اکٹھے ہی کرتے ۔ پھر ایک دن زاہد نے اسے اپنے سارے شئیر فروخت کر دئیے ۔ وہ تحریر لے کر چیف کے پاس گئی۔ زاہد سے پوچھا گیا ۔ اس نے تصدیق کر دی ۔

اب وہ ہماری کمپنی میں بیس فیصد شئیرز کی مالک بن چکی تھی ۔ اب وہ آصف پر مہربان ہونا شروع ہو گئ۔ وہی سب کچھ اب آصف کے ساتھ چل رہا تھا بلکہ وہ سینما میں فلم دیکھتے اور ڈنر پر بھی دیکھے گئے ۔ چند ماہ بعد ہی آصف کے شئیرز بھی روبینہ کے ہو چکے تھے ۔ اب اس کے پاس چالیس فیصد شئیر تھے ۔ اب اس کی تمام تر توجہ کا مرکز میں تھا ۔ اپنے دونوں ساتھیوں کو میں اپنے سامنے شکار ہوتا دیکھ چکا تھا مگر پھر بھی میں اس کے حسن کے جادو سے بچ نہ سکا ۔ میرے شئیر اس لئے بچ گئے کہ وہ میری بیگم کے نام پر تھے ورنہ ان شئیر کی بھی مالک ہوتی ۔

اس نے مجھے اس بات پر منا لیا کہ میں اسے چیف ایگزیکٹو بنوانے کے لئے اس کا ساتھ دوں کیونکہ اس کے اور میرے شئیر ملا کر 60 فیصد بنتے تھے جب کہ حفیظ کے پاس چالیس فیصد شئیر تھے۔ اب وہ ہماری کمپنی کی چیف ایگزیکٹو ہے۔ حفیظ سلیپنگ پارٹنر بن کر الگ ہو چکا ہے۔ میں روبینہ کے ماتحت کام کر رہا ہوں ۔ اس کی کاروباری ملاقاتوں کا اہتمام کرتا ہوں، ان میں شامل ہوتا ہوں ،فرق صرف اتنا ہے کہ بس میرے کندھے پر پرنا نہیں ہے۔
(تنویر بیتاب)