کنجوس شوہر کی احمقانہ وصیت اور دانا بیوی

Posted by

یہ کہانی ایک ایسے کنجوس شوہر کی ہے جو ایسا دقیانوسی تھا کہ سب گھر والے اُس سے بیزار تھے گھر میں اگر کسی کو دوائی کی ضرورت ہوتی تو یہ ڈاکٹر کی بجائے پہلے اپنے بنائے ہُوئے تمام نُسخے آزماتا اور اگر مریض بچ جاتا تو پھر اُسے ڈاکٹر سے ملاقات نصیب ہوتی۔

کنجوس شوہر کی کنجوسی عالم عروج پر تھی اور دولت سے اُسے اتنا پیار تھا کے تمام سرمایا پہلے ایک لوہے کے ڈبے میں رکھتا اور پھر اس ڈبے کو لوہے کی سیف میں بند کر کے چابی کو گلے میں لٹکا کر دن میں ہر ایک منٹ بعد ہاتھ سے چھُو کر دیکھتا کے کہیں چابی گُم تو نہیں گئی۔

وقت گُزرتا گیا اور جوانی پر بڑھاپا غالب آگیا تو کنجوس کو فکر لاحق ہوگئی کے ساری دولت جو اُس نے زندگی بھر جمع کی ہے اُس کا کیا بنے گا، اسی فکر میں وہ سرگرداں پھرتا تھا کہ ایک دن اُس کی مُلاقات ایک جعلی بابے سے ہُوئی اور بابے کی چکنی چپڑی باتیں سُن کر کنجوس نے بابے کو اپنی مُشکل بتائی اور بولا کہ میرے مرنے کے بعد میری دولت ضائع ہوجائے گی جس کا غم میں برداشت نہیں کرسکتا بابا جی۔

G:\Pics Sharing\schatzkiste.jpg

بابا جی بولے ” بیٹا تمہاری دولت ہماری دُعا سے دُنیا میں بھی تمہارے کام آئے گی اور آخرت میں بھی ، تُم ہمارا یہ تعویز اپنے سرمائے والے ڈبے میں رکھ لو اور مرنے پر اپنے اہل عیال سے وصیت کر کے مرنا کے تمہارے سرمائے والے ڈبے کو تمہارے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے، ہمارے دئیے ہُوئے تعویز کی بدولت تمہاری دولت اگلی دُنیا میں تمہارے ساتھ ہی جائے گی جسے تُم وہاں اچھے مقاصد کے لیے استعمال کر سکو گے”۔

جعلی بابے کی بات پر کوئی بیوقوف بھی یقین نہ کرتا مگر جب عقل پر پٹی بندھی ہو اور عُمر ساری کنجوسی اور دقیانوسی میں گُزاری ہو تو انوکھے واقعات رونما ضرور ہوتے ہیں لہذا کنجوس نے بابا جی کی بات پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اپنی بیوی کو بُلا کر اُسے وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد تُم بچے لیکر اپنے باپ کے گھر چلی جانا اور میری ساری دولت والا لوہے کا ڈبہ میرے ساتھ دفنا دینا تاکہ میں بابا جی کے تعویز کی مدد سے اگلی دنیا میں تم لوگوں کے لیے اچھا بندوبست کر سکوں اور اس کام کے لیے اُس نے بیوی سے قسم کھلوائی۔

بیوی دانا تھی وہ سمجھ گئی کہ کنجوس دقیانوسی اُسے اور اُس کے بچوں کو ایک پائی نہیں دے گا چنانچہ اُس نے وقتی طور پر خاموشی اختیار کی اور شوہر کے کہنے پر قسم کھائی کے وہ اُس کی وصیت پر عمل کرے گی۔

کُچھ دن بعد کنجوس رات کو سویا تو صبح کو اُٹھنا اُسے نصیب نہ ہُوا، کنجوس کے جنازے کا وقت ہُوا تو جعلی بابا جو وہیں بیٹھا تھا اُس نے کنجوس کی بیوی سے کنجوس کی وصیت پُوری کرنے کا کہا جسے سُن کر بیوی فوراً اُٹھی اور اندر سے کنجوس کے جمع کیے ہُوئے دولت پیسے کا ڈبہ اُٹھا کر لے آئی اور اُسے کنجوس کے جنازے پر رکھ کر کنجوس کی وصیت سُنائی اور اس ڈبے کو کنجوس کے ساتھ دفن کرنے کا کہا۔

جنازے کے بعد سب لوگ جب گھر آئے تو کنجوس کے ایک سمجھدار رشتے دار نے کنجوس کی بیوی کو ایک سائیڈ پر لیجا کر کہا کہ "آپ نے کنجوس کی ایسی بیوقوفانہ وصیت پر عمل کیوں کیا”۔

بیوی بولی ” میں نے مجبوراً ساری زندگی اس شخص کے ساتھ بسر کی میں اس شخص کی رگ رگ سے واقف ہوگئی اور جس وقت اس نے اپنی دولت کو ساتھ دفن کروانے کی خواہش ظاہر کی تو مُجھے پتہ چل گیا کہ اگر میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو یہ مُجھے اپنے رستے سے ہٹا دے گا، لہذا میں نے اُس کی تمام باتوں کو دانائی سے قبول کر لیا تاکہ مُجھے اس کے ڈبے سے دولت نکالنے کا موقع مل جائے اور یہ موقع مجھے مل گیا، خالی ڈبہ میں نے میت کے ساتھ دفن کروا دیا ہے آپ لوگ جاکر قبرستان دیکھو وہ جعلی بابا قبر کھودنے کی کوشش کر رہا ہوگا”۔

گاؤں والے قبرستان پہنچے تو واقعی جعلی بابا قبر کو کھودنے میں مصروف تھا چنانچہ بابا جی کی گاؤں والوں نے اچھی خاصی مرمت کی اور اُنہیں پولیس کے حوالے کیا۔

نتیجہ: بیوی اگر شوہر کی بات کا غُصہ کرتی تو یقیناً وہ دقیانوس کنجوس شوہر اُسے اپنی وصیت نہ سونپتا اور یوں وہ بیچاری اپنے جائز حق سے مرحوم ہوجاتی لیکن بیوی کی دانائی اور حکمت اُس کے کام آئی اور اُس نےخاموشی اور سمجھداری سے بغیر جھگڑا کیےاپنا کام پُورا کر لیا۔