ایک گاؤں میں میاں بیوی رہتے تھے۔ دونوں بوڑھے ہو چکے تھے۔ میاں جو کہ انتہائی کنجوس تھا نے ساری زندگی سخت جدو جہد کے بعد کافی دولت اکھٹی کر لی تھی۔ وہ ہر روز اپنی دولت کا شمار کرتا اور پھر لکڑی کے ایک ڈبے میں احتیاط سے رکھ کر اسے اپنے سیف میں بند کر دیتا۔ سیف کی چابی کو وہ اپنے گلے میں ایک زنجیر کے ساتھ لٹکا لیتا۔
بڑھاپے کی وجہ سے اسے اب یہ فکر لاحق ہو رہی تھی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی دولت کا کیا بنے گا۔ ایک دن اس نے اپنی بیوی کو بلایا اور کہا تُم ساری زندگی میری وفادار رہی ہو میری آخری خواہش ہے کہ میرے مرنے کے بعد تم میری یہ ساری دولت جو کہ لکڑی کے ڈبہ میں بند ہے میری قبر میں میرے ساتھ ہی دفن کر دینا تا کہ آنے والی زندگی میں میرے کام آ سکے۔ بیوی نے بغیر ماتھے پر کوئی بھی بل ڈالے شوہر کی بات سُنی اور اُس سے پکا وعدہ کیا کہ وہ اس کی وصیت کے مطابق عمل کریگی اور اسکی دولت کو اس کے ساتھ اسکی قبر میں دفن کر دے گی۔
ایک دن وہ شخص رات کو سویا تو صبح مرا ہوا پایا گیا۔ بیوی نے اس کے دوستوں کے ساتھ ملکر اس کے کفن دفن کا بندوبست کیا اور اس کی میت کو ایک صندوق میں ڈال دیا۔ جب صندوق کو بند کیا جانے لگا تو اس کی بیوی نے کہا کہ ابھی صندوق کو بند نہ کرنا ۔ مرنے سے پہلے میرے میاں نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میرےمرنےکے بعد میری دولت کو جو اس نے تمام زندگی سخت محنت سے کمائی اور جو ایک ڈبے میں بند ہے کو میرے ساتھ ہی دفن کر دینا تا کہ آنے والی زندگی میں وہ اس کے کام آ سکے۔ وہ گھر کے اندر سے ایک ڈبہ لیکر آئی اور اسے اپنے میاں کی میت کے سرہانے رکھ دیا اور کہا کہ اب صندوق بند کر دیں ۔میاں کے دوستوں نے بیوی کو حیرت سے دیکھا مگر پھر صندوق کو بند کر دیا اور بڑے احترام کے ساتھ قبر میں اتار کر اوپر مٹی ڈالدی۔
واپس گھر آ کر اس کنجوس کے ایک دوست نے اس کی بیوی سے پوچھا اور کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ تم اس قدر بے وقوف ہو کہ اتنی دولت کو قبر میں دفن کر دو۔ اصل ماجرا بتاؤ۔ اسکی بیوی نے اس کے دوست کو جواب دیا کہ وہ ایک سچی دیندار عورت ہے اور جو وعدہ اس نے اپنے شوہر سے کیا تھا اس نے پورا کر دیا ہے۔
میاں کے دوست نے مزید حیرت اور غُصے سے کہا کہ یہ تُم نے کیا کیا ہمیں چاہیے کہ قبر کھود کر لکڑی کا ڈبہ اُس میں سے نکالیں تاکہ تمہارے اور تمہارے بچوں کے کام آ سکے۔
کنجوس کی بیوی نے جواب دیا ہمیں قبر کھودنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں نے اپنے کنجوس اور احمق میاں کو مرنے سے پہلے راضی کر لیا تھا کہ وہ ساری دولت بنک اکاؤنٹ میں جمع کروا دے اور قبر میں ساتھ چیک بُک لے جاۓ اور بوقت ضرورت چیک کا استعمال کر کے اپنی ضرورت پُوری کر لے وگرنہ اتنی دولت کو قبر میں دیمک لگ جاۓ گی اور وہ دُوسری دُنیا میں اس کے کُچھ کام نہ آ سکے گی، بیوی نے مزید بتایا کہ اُس کے شوہر کو اُس کی وفاداری پر پُورا بھروسا تھا اس لیے اس لیے اُس نے اُس کی بات مان لی ، اب وہ صبح بنک والوں کو شوہر کا ڈیتھ سرٹیفیکٹ دیکھا کر بنک سے پیسہ نکال لے گی۔
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بیوی اگر شوہر سے اُس کی اس نامعقول وصیت پر لڑائی جھگڑا کرتی تو وہ کنجوس اور احمق ضرور دولت کو اپنے ساتھ لیجا نے کے لیے ضائع کر دیتا اور بیوی اور اُس کے بچوں کے حصے کُچھ نہ آتا مگر بیوی نے انتہائی صبر سے اُس کی وصیت سُنی اور اُس پر عمل کرنے کا اُسے پُورا یقین دلایااور پھر عقل اور دانش سے بغیر جھگڑا کیے اُسے دلیل کیساتھ دولت بنک میں جمع کروانے کا مشورہ دیا جسے وہ مان گیا اور یُوں بیوی کی دوراندیشی سے جہاں گھر فساد سے بچ گیا وہاں دولت بھی ضائع نہیں ہُوئی۔
نتیجہ : میاں بیوی کا تعلق اگر لڑائی اور فساد کی نظر ہو جاۓ تو تباہی مُقدر ہے اور اُن دونوں میں سے کوئی ایک اگرجہالت کا ثبوت دے اور دُوسرا دانائی اور صبر کا مُظاہرہ کرے تو جہاں نہ صرف رشتہ بچتا ہے وہاں ایک دن صبر کرنے والے کو اُس کے صبر کا پھل ضرور ملتا ہے۔