کیا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا بچ نکلنا مشکل ہو گیا ہے ، آڈیو کلپ کی فرانزک رپورٹ کا تہلکہ خیز انکشاف

Posted by

سپریم کورٹ کے سابق چیف جناب ثاقب نثار اور ایک نامعلوم شخص کے درمیان ہونے والی گفتگو جس کی آڈیو ریکارڈینگ کُچھ دن پہلے منظر عام پر آئی تھی اور اس ریکارڈینگ نے پاکستان کے نظام عدل پر ایک سوالیہ نشان کھڑا کر دیا تھا اب اس آڈیو کلپ کی جانچ امریکہ کی ایک کمپنی سے کروائی گئی ہے جس نے اس ویڈیو کی جانچ کرنے کے لیے دو ہزار ایک سو ڈالر وصول کیے ہیں۔ جانچ کرنے والی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفسیر نے کہا ہے کہ آڈیو کلپ بلکل ٹھیک ہے اور اس کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی اور ہماری کمپنی ایک تکنیکی کمپنی ہے جسکا پاکستان اور اس کی سیاست کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے۔

میڈیا نیوز کے مطابق ویڈیو، آڈیو اور موبائل کی فرانزک کرنے والی کمپنی گیریٹ ڈسکوری کے چیف نے اپنے بیان میں کہا کہ اُن کی کمپنی فیکٹ فوکس نام کی نیوز سائٹ کے آڈیو کلپ کی وجہ سے تقریباً دو ہزار فون کالز وصول کر چُکی ہے اور فون کرنے والوں کی اکثریت ان سے فرانزک رپورٹ کو بدلنے کا کہہ رہی ہے۔ مسٹر ڈسکوری کے مطابق اُنہیں فون کرنے والے دھکیاں دیتے ہیں کہ وہ انتظار نہیں کر سکتے اور وہ مجھ پر مقدمہ کریں گے۔ مسٹر گیریٹ نے کہا کہ وہ ان دھمکی دینے والوں کو خاطر میں نہیں لائیں گے اور وہ امریکہ جیسے ایک محفوظ اور آزاد ملک میں ہیں اور ان کے خلاف پاکستان میں کسی صورت مقدمہ نہیں چل سکتا۔

کمپنی کے چیف نے مزید کہا کے انہیں جس آدمی نے آڈیو کلپ تجزیہ کرنے کے لیے دیا ہے وہ شخص ہی اس چیز کا ذمہ دار ہے اور وہ تو اس آڈیو کلپ کے متعلق بلکل نہیں جانتے تھے کے یہ کس موضوع پر ہے اور نہ ہی وہ پاکستان میں ہونے والی سیاست کے بارے میں زیادہ کُچھ جانتے ہیں۔

فرانزک کرنے والی اس کمپنی نے تصدیق کر دی ہے کہ آڈیو کلپ کو ایڈیٹ نہیں کیا گیا لیکن ساتھ ہی کمپنی نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ آڈیو میں بات کرنے والا شخص کون ہے اور جن اشخاص نے اس آڈیو کا فرانزک کروایا ہے اُنہوں نے اس آڈیو کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔

پاکستانی میڈیا میں پیش ہونے والی بہت سی رپورٹس میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ فرانزک کے ماہر کو ریکارڈنگ کی اصل کاپی نہیں دی جاتی اس لیے اُن کے پاس آڈیو کی حقیقت جاننے کا کوئی بھی طریقہ موجود نہیں ہوتا لیکن فرانزک کرنے والی کمپنی کے چیف نے اس کی وضاحت کرتے ہُوئے کہا ہے کہ جب آپ کوئی ریکارڈنک کرتے ہیں تو دوبارہ اسے ریکارڈ کرنے کے لیے کوئی اور آلہ استعمال کریں تو وہ ریکارڈینگ مستند اور ٹھیک نظر آتی ہے لیکن ساتھ ہی اُنہوں نے اپنی رپورٹ کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اُن کے اس بیان کو کسی تصدیقی طور پر نہیں لینا چاہیے۔ گیریٹ نے انہیں دہمکی دینے والوں کو کہا ہے کہ وہ بلکل نہیں جانتے تھے کہ جس آڈیو کی فرانزک وہ کر رہے ہیں اُس میں موجود آدمی کون تھا اور وہ صرف آڈیو میں موجود ڈیجیٹل ڈیٹا کو ہی دیکھ رہے تھے اور وہ اپنے اس کام کا معاوضہ لیتے ہیں۔