ہالینڈ کے بچے دُنیا میں سب سے زیادہ خوش ہیں اور اس کے پیچھے وہاں بچوں کی دلچسپ تربیت ہے

Posted by

شام کے وقت چھت پر بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ پڑوس کے گھر سےپڑوسن کی زوردار آواز آئی ‘‘کاشف اسکول کا کام کب کرے گا؟ ظاہر ہے یہ ایک ماں کی آواز تھی جو اپنے بچے کی تعلیم کے بارے میں فکر مند تھی، لیکن طریقہ وہی تھا جو ایک عام دیسی پاکستانی کا ہے۔ خاتون کی تنقید ذہن میں آنے سے پہلے کل کی غلطی یاد آگئی۔ میں نے اپنے 10 سال کے بچے کو بھی اسی طرح ڈانٹا تھا۔ جو ہمیشہ اپنی پڑھائی میں ٹاپ پر ہوتا ہے لیکن ہماری پرانی سوچ کے مطابق کتابی کیڑا بننے سے بچتا ہے۔

گوگل میں سرچ کرنا شروع کیا کہ کیا دنیا کے دیگر ممالک میں والدین بچوں کو کس طرح سنبھالتے ہیں، تو یونیسیف کی سال 2020 کی رپورٹ ملی جس کے مطابق یورپی ملک ہالینڈ کے بچوں کو سب سے زیادہ خوش رہنے والا قرار دیا گیا ہے۔ ذہن میں سوال ابھرا کہ آخر وہاں کے والدین کے طریقے کیا ہیں یا اسکول کے نظام میں ایسا کیا فرق ہے کہ وہاں کے بچے مار پیٹ اور ڈآنٹ اور والدین اور استادوں کے غصے سے بچے رہتے ہیں اور لائق بھی ہیں اور دُنیا کے خوش ترین بچوں میں شمار ہوتے ہیں۔

یونسیف کی یہ بچوں کے متعلق یہ رپورٹ 41 امیر ممالک کے مطالعے کی بنیاد پر تیار کی گئی تھی۔ اس کا پیمانہ علمی اور سماجی مہارت تھا۔ اس کے ساتھ دماغی صحت اور جسمانی صحت سمیت وہ تمام پیرامیٹرز بھی تھے جو صحت مند جسم اور صحت مند ذہن کے لیے ضروری ہیں۔ ہالینڈ کے بعد ڈنمارک اور ناروے اس فہرست میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ چلی، بلغاریہ اور امریکہ 41 ممالک کی اس فہرست میں سب سے نیچے پائے گئے۔ نیدرلینڈز معاشی طور پر ایک مضبوط ملک ہے، حکومتیں سماجی تحفظ کے حوالے سے بہت سی ذمہ داریاں بھی اٹھاتی ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ صرف پیسہ ہی خوشحالی لاتا ہےکیونکہ اگر پیسے سے ہی بچوں کی خوشی کا فیصلہ ہوتا تو امریکہ اتنا پیچھے نہ ہوتا۔

بچوں کی نفسیات کے مارہین کے مطابق اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے خوش رہیں تو بچوں کے لیے واضح حدیں مقرر کریں، محبت اور رشتوں میں گرم جوشی، کچھ اچھا کرنے کی تحریک دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے مستقبل کے راستے کا انتخاب کرنے کی آزادی دیں۔ یہ کچھ ایسے راز ہیں جو بچوں کی خوشیوں کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ بچوں سے کھل کر بات کریں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں، کیا خامیاں ہیں، ان پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے۔ ڈچ لوگ، یعنی ہالینڈ کے لوگ بھی اپنے بچوں سے ان مسائل پر کھل کر بات کرتے ہیں جن پر ایشیائی معاشروں میں بچوں اور والدین کے درمیان دیوار کھڑی کر دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے عوامل ہیں جو طے کرتے ہیں کہ بچوں کی زندگی خوشگوار گزرے گی یا نہیں۔ مثال کے طور پر بچوں پر کتنا تعلیمی بوجھ ہے، سوشل میڈیا کے زیر اثر دوسروں کی پوسٹس دیکھ کر آپ کنفیوز ہو کر بچوں پر دباؤ تو نہیں پیدا کر رہے، کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ وہ لوگ جو چمک رہے ہوں وہ خوش ہوں۔ ضروری نہیں کہ سوشل میڈیا پوسٹس درست ہوں۔ سوشل میڈیا کے دور میں والدین کے لیے حقیقت کی زمین کو پہچاننا ضروری ہے۔ بچوں پر غیر ضروری دباؤ نہ ڈالیں۔ بچوں کو اس سمت میں کام کرنے کی آزادی ملنی چاہیے جو وہ بننا چاہتے ہیں۔ وہ مثبت ماحول کے لیے اپنے صحیح دوستوں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ ہر چیز پر ان کا فیصلہ نہ کریں۔ انہیں کھیلوں کی آزادی بھی ملنی چاہیے۔

نیدرلینڈز ایک ایسا ملک ہے جس میں اسکولوں میں ایک دوسرے سے تعلیمی مقابلہ کے ماحول کی بجائے ہنر سیکھنے کے ماحول پر زور دیا جاتا ہے۔ والدین کے لیے، ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ امتحانات کے نمبرز بچوں کا فیصلہ کرنے کے لیے حتمی معیار نہیں ہو سکتے۔ اس کے بجائے بچوں میں سیکھنے اور تجسس کے ماحول کو بڑھانے پر زور دیں۔ اس فہرست میں ناروے تیسرے نمبر پر ہے۔ ناروے اپنے اسکولوں میں یکجہتی کو فروغ دینے کے لیے جانا جاتا ہے۔ یعنی ترقی میں اپنے ساتھ دوسروں کی مدد کرنے کی عادت۔ اس کے لیے وہاں کے معاشرے میں کمیونٹی کی بہتری کے کام میں خاندانوں کے تعاون کو بہت سراہا جاتا ہے۔

ہمارا ایشیائی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے کیونکہ ہم نے نہ تو خاندانوں کی دیکھ بھال پر توجہ دی اور نہ ہی معاشرے میں اچھی عادات، اچھے کام اور اچھے اقدام کو سراہنے میں پہل کی۔ اور جو ہم نہیں کرتے وہ بچے کیسے سیکھیں گے۔ ہم بچوں سے کہتے ہیں کہ وہ غلطیاں نہ کریں اور یہی غلطیاں ہم خود کرتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ غلطی اگر ہم خود کر رہے ہوں اور ہم بچوں کو روک سکیں۔ اس لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود میں تبدیلی لائیں اور پھر بچوں کو اچھی تبدیلیاں سکھائیں۔