مولا علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میں علم کا شہر ہُوں اور علی اُس کا دروازہ ہے، جناب علی علیہ السلام نے علم سیدھا معلم کائنات مُحمد مُصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سیکھا اور آپ کی ساری زندگی آپ کے ساتھ رہے۔
ایک دفعہ یہودیوں کی ایک جماعت مولا علی رضی اللہ تعالی کے پاس آئی اور وہ جناب علی کے علم اور دانائی کے مُقام سے واقف تھے اور نادان یہ سوچ کر آئے تھے کہ اگر کسی طریقے سے وہ مولا کو علمی بُنیاد پر شکست دے دیں تو اس سے مُسلمانوں کو شرمندگی ہوگی اور ہر طرف ہمارا ڈنکا بجنے لگے گا، چنانچہ اس جماعت نے منصوبہ بنایا کہ ہم مولا علی علیہ السلام سے مُشکل سوالات کریں تاکہ وہ ان کا جواب نہ دے پائیں۔
اس جماعت کے یہودیوں نے یہ بھی منصوبہ بنایا کہ اگر جناب علی اُن کے سوالات کے جواب دینے پر فقط تیار ہی ہو جائیں اور جواب نہ بھی دیں تو بھی وہ جیت جائیں گے کیونکہ وہ مولا پر شرط لگانے والے تھے کہ اُن کے سوالات کا جواب قُرآن کی بجائے تورات سے دیا جائے اور اگر باب علم اس بات پر راضی ہوگئےتو اُنہیں قُرآن سے ہٹنا ہوگا۔
یہودیوں کی یہ جماعت اپنے دانشور راس الجالود کی قیادت میں امام علی کے پاس آئے اور بولے اے علی ہم لوگوں نے آپ کے علم کا بہت چرچا سُنا ہے۔ حضرت علی مُسکرا کر بولے تو کیا اس بات کی تصدیق کرنے آئے ہو؟۔ راس الجالود بولا ہم آپ سے چند سوالات کریں گے آپکو اُن کا جواب ہماری کتاب تورات سے دینا ہوگا اور اگر آپ نے سب کے سامنے ان سوالات کا ٹھیک جواب دے دیا تو ہم آپکو با ب العلم مان لیں گے۔
مولا علی نے یہودیوں کا چیلنچ قبول کر لیا اور بولے اگر میں تُمہارے سوالات جو کہ میں ابھی تک جانتا نہیں ہُوں کہ کیا ہیں ان کے جواب دینے میں کامیاب ہو گیا تو کیا تُم لوگ اسلام قبول کر لو گے؟۔ یہودی اس بات پر آمادہ ہوگئے کہ اگر اُن کے تمام سوالوں کے جواب اُنہیں تورات سے مل گئے تو وہ یہودی مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کر لیں گے اور یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ جن سے آپ نے علم سیکھا ہے وہ یقیناً اللہ کی طرف سے بھیجے گئے نبی ہیں۔
دونوں فریقوں میں معاملات تہہ ہو گئے اور سب لوگوں کو بُلا لیا گیا تو یہودیوں کی طرف سے راس الجلود چہرے پُر فاتحانہ مُسکراہٹ لیکر فاتح خیبر سے علم کے تکبر میں بولا ” اے علی اُس ایسی چیز کا نام بتائیں جو خُدا کے لیے نہیں ہے”، یہودی یہ جانتے تھے کہ مُسلمانوں کی کتاب میں درج ہے کہ ہر چیز خُدا کے لیے ہے اور اس بات کا جواب باب علم کے لیے دینا نا ممکن ہو گا۔
مجمع میں بیٹھے تمام افراد سوچ میں ڈُوب گئے کہ کائنات میں کوئی ایسی چیز بھی ہے جو خُدا کے لیے نہ ہو تب مولا علی نے بغیر کسی توقف کے فرمایا تُم جاننا چاہتے ہو وہ کونسی چیز ہے جو اللہ کہ لیے نہیں ہے تو اسکا جواب "شرک” ہے اللہ ہر قسم کے شرک سے پاک ہے۔
تمام مجمع جو بیٹھا سُن رہا تھا بے ساختہ واہ واہ کہہ اُٹھا تو راس الجلود نے دُوسرا سوال کیا اور بولا اے علی یہ بتائیے کو وہ کونسی جگہ ہے جہاں اللہ موجود نہیں ہے؟، مولا علی بولے "اللہ ہر جگہ موجود ہے” اس پر راس الجلود بولا اس سوال کا جواب آپ ہمیں ہماری کتاب سے دیں۔
علی المرتضی نے فرمایا کیا تمہاری کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ مُوسی علیہ السلام کے پاس ایک فرشتہ آیا آپ نے اُس سے پُوچھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے تو اُس نے جواب دیا کہ ساتویں آسمان سے آیا ہے پھر ایک فرشتہ آیا اور اُس سے پُوچھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے تو وہ بولا کے وہ زمین کی ساتویں گہرائی سے آیا ہے، مُوسی علیہ السلام نے دونوں سے سوال کیا تمہارے قریب وہاں کون تھا تو وہ بولے ہمارے قریب وہاں ہمارا رب تھا پس معلوم ہُوا کہ بُلندیوں کی انتہا ہو یا پستی کی انتہا رب ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ یہ جواب سُن کو یہودی ششدر رہ گئے تب مولا نے فرمایا پاک ہے وہ ذات جو کائنات کے ذرے ذرے میں ہے اور ہر چیز میرے رب کے قریب ہے۔
تیسرا سوال یہودیوں نے پُوچھا یا علی یہ بتائیں وہ کونسی چیز ہے جو رب کے قریب نہیں ہے؟۔ مولا علی بولے ظُلم ایک ایسی چیز ہے جو میرے رب کے قریب نہیں ہے۔ تیسرا جواب ٹھیک ہونے پر راس الجلود تھوڑا پریشان ہُوا اور اپنی حکمت عملی بدل کر علمی سوال کرنے کی بجائے مولا سے تاریخی سوال کیا اور بولا "اے علی اُس چشمے کا نام بتائیں جو زمین پر پہلی مرتبہ جاری ہُوا” ۔ مولا علی بولے اُس چشمے کو چھوڑو پہلے میں یہ بتاؤں کے تُمہارے دل میں کیا ہے؟ اور تمہارے دل میں یہ ہے کہ وہ چشمہ بیت المقدس کی ایک چٹان کے نیچے ہے۔ راس الجلود کے مُنہ سے بے ساختہ ہاں نکلا تو مولا علی بولے ” آج اپنی اصلاح کر لو کیونکہ زمین پر بہنے والا پہلا چشمہ وہ نہیں ہے جسے تُم سجھتے ہو بلکہ زمین پر بہنے والا پہلا چشمہ وہ ہے جس سے حضرت خضر نے پانی پیا تھااور اُس سے آب حیات جاری ہے۔
یہودیوں نے اس جواب کے بعد ایک اور تاریخی سوال کیا اور بولے یہ بتائیں وہ کونسا پہلا پتھر ہے جو آسمان سے زمین پر اُتارا گیا۔ اس سوال پر مولا علی بولے تُم لوگوں کے ذہنوں میں پہلا پتھر وہ ہے جو بیت المقدس میں نصب ہے لیکن تُم یہ بات بھول جاتے ہو کہ خانہ کعبہ بیت المقدس سے کہیں پُرانا ہے اور حجر اسود اُسی وقت نصب کیا گیا جب خانہ کعبہ پہلی دفعہ تعمیر ہُوا تھا اور وہی پہلا پتھر ہے۔
یہودیوں آپ کے جوابات سُن کر ہمت نہ کر سکے کہ اُنہیں غلط قرار دیں کیونکہ آپ اُن کے جوابات انتہائی دلیل کے ساتھ دے رہے تھے اور اُن کی اصلاح بھی کرتے جا رہے تھے تب اُن کے راہنما نے ایک اور مُشکل سوال کیا اور بولے یہ بتائیں وہ کونسی چیز یں ہیں جو مسلسل کم اور زیادہ ہو رہی ہے۔ مولا علی بغیر کسی توقف کے بولے تُم اپنے ماہ و سال پر غور نہیں کرتے کہ ہر دن اور رات آنے والے دن اور رات سے پہلے مسلسل کم ہوتی ہے اور پھر مسلسل زیادہ۔
راس الجلود نے اس پر ایک اور سوال پُوچھا بولا” زندہ رہنے کی پہچان سانس لینا ہے کیا کائنات میں کوئی چیز ایسی بھی ہے جو سانس لیتی ہے مگر زندہ نہیں؟، حضرت علی نے فرمایا ” جانتے ہو نہ کتاب میں لکھا ہے کہ صُبح جب نکلتی ہے تو سانس لیتی ہے حالانکہ صُبح کے پاس نہ روح ہے اور نہ جان۔ یہ سُن کر وہ جلدی جلدی بولا اچھا یہ بتائیں زمین کا وہ کونسا حصہ ہے جہاں سُورج کی کرنیں ساری زندگی میں صرف ایک دفعہ پڑیں اور پھر کبھی نہیں پڑیں۔
مولا علی نے فوراً جواب دیا ” مُوسی علیہ السلام نے جب دریا کو اپنے اعصا سے دو ٹکڑے کیا تو اُس زمین پر سُورج کی کرنیں پہلی دفعہ پڑیں اور جب آپ گُزر گئے اور پانی نے وہ راستہ بند کر دیا تو پھر اُس جگہ سُورج کی کرنیں دوبارہ کبھی نہیں پڑیں۔
اگلا سوال یہودیوں نہ یہ کیا بولے ” یا علی یہ بتائیں وہ کونسی دو چیزیں ہیں جو ہمیشہ غائب رہتی ہے اور وہ کونسی دو چیزیں ہیں جو ہمیشہ حاضر رہتی ہیں۔ مولا بولے آسمان اور زمین کی طرف دیکھو وہ دونوں تمہیں کبھی غائب نظر نہیں آئیں گےوہ دونوں ہمیشہ حاضر رہتے ہیں اور موت اور زندگی کو دُھونڈو تو تم دونوں کو غائب پاؤ گے اور تمہارے پاس ان کا کوئی پتہ نہیں ہے۔
یہودی راہنما حیرت زدہ تھا مگر اپنے اس سوال پر اُسے یقین تھا کہ اُسے اس کا جواب نہیں ملے گا لہذا بولا یہ بتائیں یا علی وہ کونسی چیز ہے جسکا خالق خُود اللہ ہے مگر اُسی کے بارے میں خُود سوال بھی کرتا ہے۔ مولا علی بولے مُوسی علیہ السلام کے عصا کا خالق خود اللہ ہے اور اس عصا کے بارے میں اُس نے خود مُوسی سے سوال بھی کیا اور پُوچھا مُوسی یہ آپکے ہاتھ میں کیا ہے؟۔
پھر یہودیوں نے اگلا سوال کیا بیت اللہ کا طواف تو ذی حیات کرتے ہیں لیکن اُس بے جان چیز کے بارے میں بتائیں جس نے بیت اللہ کا طواف کیا؟۔ مولا علی بلا توقف بولے کشتی نوح ایک ایسی بے جان چیز ہے جو طوفان کے دوران اُس مقام پر پہنچی جہاں بیت اللہ ہے تو اُس نے اس کے گرد 7 چکر طواف کیا۔
راس الجلود نے باب علم مولا علی سے کئی سوال کیے اور تمام کے جواب آپ نے بلکل ٹھیک ٹھیک بلا توقف دئیے تو مجمے میں بیٹھے ہُواایک یہودی بولا حضرت لوگ تو ہر سوال پر سوچ کر جواب دیتے ہیں آپ تو ہر سوال کا جواب بلا توقف دے رہے ہیں اس پر مولا علی بولے تمہارےایک ہاتھ میں کتنی اُنگلیاں ہیں تو وہ فوراً بولا پانچ اس پر مولا بولے مُجھے بھی تم لوگوں کے سوالوں کے جواب ایسے ہی معلوم ہیں جیسے تُمہیں پتہ ہے کہ تمہارے ہاتھ میں پانچ انگلیاں ہیں۔
یہودی نادان نہیں جانتے تھے کہ باب العلم کے پاس کائنات کے رازوں کا علم ہے لیکن جب اُنہیں تمام سوالات کے جوابات ٹھیک مل گئے تو راس الجلود سمیت تمام گروہ نے کلمہ پڑھا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
Featured Image Preview Credit: Tasnim News Agency, CC BY 4.0, via Wikimedia Commons