حیکم اجمل خان کا شُمار برصغیر کے انتہائی نامور طبیبوں میں ہوتا ہے جو طب یونان اور طب ایوردیک میں کمال فضیلت رکھتے تھے آپ 1892 میں نواب آف رامپور کے چیف فیزیشن تھے اور انہیں مسیحائے ہند کا لقب دیا گیا تھا جو مریض کا چہرہ دیکھ کر مرض کی صحیح تشخیص کرتے تھے اور آپ کے ادویاتی نُسخے لاعلاج بیماروں کو بھی ٹھیک کر دیتے تھے۔

آپ 1927 میں 59 سال کی عمر میں دُنیا سے رخصت ہُوئے اور دہلی میں اپنی طب کی پریکٹس کے دوران اگر شہر سے باہر کسی مریض کو دیکھنے جاتے تو اس کام کی 1 ہزار روپئے فیس لیتے تھے لیکن دہلی میں اپنے مکتب پر مریضوں کا مُفت علاج کرتے تھے۔
1918 میں پہلی جنگ عظیم کے بعد انفلوئینزا جیسی نزلے زکام کی عالمی وبا پھیلی جس نے 40 ملین لوگوں کی جان لے لی اور یہ بھی کرونا وائرس کی طرح لا علاج تھی اور اس بیماری کی علامات بھی کرونا وائرس کی علامات سے ملتی جُلتی تھیں اور اس بیماری کا بھی میڈیکل سائنس کے پاس کوئی علاج نہیں تھا۔
اس آرٹیکل میں حکیم اجمل کے اُس نُسخے کو شامل کیا جا رہا ہے جو انہوں نے انفلوائنزا کی وبا کے دوران مریضوں کو استعمال کروایا اور بیشمار لوگوں کی جان بچائی اور ساتھ ہی ہم یہ بھی جانیں گے کہ حکیم صاحب کے اس نُسخے میں شامل چیزوں کے متعلق جدید میڈیکل سائنس کیا کہتی ہے اور کیا یہ نُسخہ کرونا کے خلاف مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟۔
اینفوائنزا کی علامات
نزلہ زکام کی یہ وبا بھی کرونا کی طرح مریض کو بُخار میں مُبتلا کر دیتی تھی اُسے پیشانی اور کمر وغیرہ میں درد محسوس ہونا شروع ہو جاتا تھا اور کئی مریضوں کو شدید سردی لگتی تھی اور آنکھوں سمیت پُورے جسم میں شدید درد ہوتی تھی خاص طور پر سر میں بہت زیادہ درد ہوتی تھی گلا درد کرتا تھا اور آواز بیٹھ جاتی تھی سینے پر بوجھ پڑتا تھا اور خشک کھانسی کے ساتھ سانس لینے میں تکلیف ہوتی تھی، قے اور دست بھی اسکی علامات تھیں اور اسکے ساتھ مُنہ کا ذائقہ بھی ختم ہو جاتا تھا اور جب یہ علامات شدید ہوتی تھیں تو یہ مریض کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی تھیں۔
حیکم اجمل کا علاج
حکیم اجمل اس وبا کے دور میں لوگوں کو چائے اور قہوے کے زیادہ استعمال کیساتھ بھوک سے کم کھانا، کُھلی اور تازہ ہوا میں رہنا، صاف کپڑے پہننے کا مشورہ دیتے تھے تاکہ اس مرض سے بچا جا سکے اور اگر کوئی مریض اس وبا میں مُبتلا ہوتا تو فرماتے تھے کہ اسے گھر میں علیحدہ کمرے میں آرام سے لٹائیں۔
حکیم صاحب کے طریقہ علاج میں ایسے مریضوں کو فوری طور پر قرص ملین 4 عدد نیم گرم پانی کے ساتھ پلائی جاتی تاکہ اس سے اُس کا پیٹ صاف ہو جائے، آج جدید میڈیکل سائنس کا ماننا ہے کے قوت مدافعت کا 80 فیصد تعلق نظام انہظام سے ہے اور اگر نظام ٹھیک کام کر رہا ہو تو وائرل بیماری پر جسم خُود بخود قابو ڈال لیتا ہے۔
قرص ملین کے ساتھ حکیم صاحب مریض کو صُبح اور شام خاص قہوہ پلانے کا مشورہ دیتے تھے اور اس قہوے میں بیدانہ 3ماشہ، عناب 5 دانہ اور سپستان 9 دانے پانی میں ہلکا جوش دیکر قہوہ بنایا جاتا تھا اور قہوے میں 2 تولہ شربت بنفشہ شامل کیا جاتاتھا، آج جدید میڈیکل سائنس کا ماننا ہے کہ بیدانہ عناب اور سپستان اینٹی آکسائیڈینٹ سے بھرپُور ہوتے ہیں اور ان میں وٹامن سی بھی پایا جاتا ہے جو کہ بذات خُود ایک اینٹی آکسائیڈینٹ ہے اور یہ اینٹی آکسائیڈینٹس جسم کو فری ریڈیکلز کے حملے سے بچاتے ہیں اور دل کینسر اور شوگر کے لیے انتہائی مُفید ہونے کیساتھ ہماری قوت مدافعت کو مضبوط بناتے ہیں۔
اوپر دئیے گئے قہوے میں اگر مریض کو بُخار ہوتا تو اُسے خاکسی (پنسار سے عام مل جاتی ہے) پانچ ماشہ قہوے میں ڈال کر پلائی جاتی۔
اینفلوائنزا کے دوران جن مریضوں کو شدید درد سر ہوتا اُنہیں پاشوبہ کروایا جاتا تھا اور اس کے لیے گُل بنفشہ ایک تولہ، اکلیل الملک ایک تولہ، گل بابونہ ایک تولہ، مرزنجوش ایک تولہ، گل خطمی ایک تولہ اور بیری کے پتے 5 تولہ کو 10 لیٹر پانی میں جوش دیکر اس گرم پانی میں مریض کے پاؤں پنڈلیوں تک 10 منٹ تک ڈبوئے جاتے تھے۔
آج کرونا کی وجہ سے جن مریضوں کو شدید سر درد ہوتا ہے ڈاکٹر حضرات کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ جسم میں آکسیجن کی کمی ہے اور اوپر دیا گیا پاشوبہ کا عمل جسم میں آکسیجن کی سپلائی کو بہتر بناتا ہے۔
حکیم صاحب مریض کی حالت کیساتھ اپنے نُسخے میں تھوڑی رد و بدل کرتے تھے مثلا اگر مریض کو شدید کھانسی ہوتی تو قہوے میں شربت بنفشہ کی بجائے شربت اعجاز شامل کروایا کرتے تھےاور قہوے سے پہلے خمیرہ خشخاش 7 ماشہ کھلاتے اور اگر گلے میں درد ہوتی توقہوے میں شربت شہتوت شامل کرنے کا مشورہ دیتے۔
جدید میڈیکل سائنس کی کئی تحقیقات میں یہ بات ثابت ہو چُکی ہے کہ شہتوت اور خمیرہ خشخاش اینٹی اینفلامیٹری ہیں جو جسم کی اندرونی سوزش کو ختم کرنے کے لیے ہربل ادویات ہیں اور یہ دونوں گلے کی سوزش میں انتہائی مُفید ثابت ہوتے ہیں۔
شدید کھانسی کی صُورت میں خمیرہ گاؤزبان ایک تولہ ورق نقرہ ایک عدد میں لپیٹ کر کھلایا جاتا اور دُوسرے وقت میں کھانسی کے لیے لعوق سپستان ایک تولہ لعوق معتدل ایک تولہ پانی یا عرق گاؤزبان میں جوش دے کر گرم گرم ناک اور سر کا بھپارہ کروایا جاتا تھا اور اگر کھانسی کیساتھ سینے میں درد ہوتا تو قیروطی ارد کرسنہ ایک تولہ، زعفران ایک ماشہ ایلوا ایک ماشہ باریک پیس کر سینے پر گرم روئی کیساتھ ملا جاتا تھا۔
اس بیماری کے دوران کھانے پینے کے لیے شوربہ، یخنی، مونگ کی دال اور پانی کی جگہ عرق مکوہ اور گاؤزبان نیم گرم پلانے کا مشورہ دیا جاتا تھا۔
نوٹ: اوپر نُسخہ جات میں دی گئی تمام چیزیں آپ کو پنسار سے عام مل جائیں گی اور چُونکہ کرونا کا میڈیکل سائنس کے پاس کوئی علاج موجود نہیں اس لیے کوئی مضائکہ نہیں کے حکیم اجمل کے اس نُسخے کو اس وبا کے دور میں استعمال کیا جائے اور اس سے فائدہ حاصل کیا جائے لیکن اگر علامات شدید ہوں تو فوراً ڈاکٹر سے رابطہ ضرور کریں۔ چین میں چینی حکام نے کرونا کی کوئی دوائی نہ ہونے کے باعث اس مرض کے علاج کے لیے قدیم چینی طریقہ علاج کو استعمال کروایا اور ہم سب جانتے ہیں کہ اُن کے قدیم طریقہ علاج سے اُنہوں نے اس مرض پر بہت جلدی قابو حاصل کر لیا۔