برطانیہ کے ایک مشہور فلاسفر جان ملٹن نے سولہویں صدی میں اپنی کتاب گُمشدہ جنت میں کامیابی کے دو اصول بتائے تھے جان ملٹن نے کہا تھا”Awake, arise or be forever fall’n.” یعنی اُٹھو اور چھا جاؤ یا fall forever۔
جان ملٹن کے اس مصرعے کی روشنی میں ہمارا پاکستانی روپیہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک کامیابی کے دوسرے رہنما اصول پر قائم رہتے ہُوئے اپنے سفر پر رواں دواں ہے اور مسلسل گر رہا ہے۔
اس آرٹیکل میں ہم پاکستانی روپیے کا 1947 سے آج تک کا زاوال کا سفر ذکر کریں گے اور جانیں گے کہ کس حکمران کے دور میں ہمارا روپیہ کتنا گرا تاکہ ہمیں سمجھنے میں آسانی ہو کہ آج تک کے حکمران کیسے معیشت پر اثر انداز ہُوئے۔
قائد اعظم محمد علی جناح
آپ سب کو یہ جان کر خوشی ہوگی کے 14 اگست 1947 میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا اور قائد اعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے تو ایک ڈالر ایک روپیے کا تھا اور ایک روپیے کا ہی رہا۔
لیاقت علی خان
قائداعظم کے انتقال کے بعد پاکستان کے پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان اپنی شہادت سے پہلے 1951 تک پاکستان کے وزیراعظم رہے اور روپیے کی قدر میں کوئی کمی نہ ہوئی اور ڈالر مستقل 1 روپیے کا ہی رہا۔
خواجہ ناظم الدین
لیاقت علی خان صاحب کے انتقال کے بعد خواجہ ناظم الدین 1951 سے 1953 تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے اور ان کے دور میں روپیے کی قدر میں 200 فیصد کمی ہوئی اور ایک ڈالر 3 روپیے کا ہو گیا۔
سکندر مرزا
ایوب خان
یحییٰ خان
ایوب خان صاحب کے بعد یحیُی خان صاحب 1972 تک پاکستان کے صدر رہے اور ان کے دور میں ڈالر ایک روپیے اضافے کیساتھ 5 روپیے کا ہو گیا۔
ذولفقار علی بھٹو
پھر 1972 سے لیکر 1977 تک ذولفقار علی بھٹو صاحب کا دور رہا اور اس دور میں روپیے کو خواجہ نظام کے دور کے بعد دُوسرا بڑا جھٹکا لگا اور ڈالر سیدھا 5 روپیے سے 10 روپیے پر چلا گیا یہ وہ دور تھا جس میں شائد ہمارے سیاست دان اس راز کو سمجھ گئے تھے کے مسلسل زوال بھی کامیابی ہے۔
ضیا الحق
ذورلفقار علی بھٹو کے بعد ضیا صاحب پاکستان کے صدر کے عہدے پر براجمان ہُوئے اور 1988 تک پاکستان کے صدر رہے ان کے11 سالہ دور میں روپیہ مزید گرتے گرتے ایک ڈالر کے مقابلے میں 20 روپیے کا ہوگیا۔
ضیا صاحب کے طیارہ حادثے میں انقتال کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو 2 سال تک پاکستان کی وزیراعظم رہیں اور ان کے دور میں ڈالر 20 سے بائیس روپیے تک چلا گیا۔
بے نظیر بھٹو
پھر 1990 سے 1993 تک میاں نواز شریف مُلک کے وزیز اعظم رہے اور انہوں نے بھی کامیابی کا سفر بقول جان ملٹن زوال کی شکل میں جاری رکھا اور جاری رکھا اور اپنے اس تین سالہ دور میں ڈالر کو 22 سے 30 روپیہ تک کا کر دیا۔
میاں نواز شریف
میاں صاحب کے بعد بے نظیر دوبارہ مُلک کی وزیر اعظم بنیں اور 1993 سے 1996 تک اقتدار میں رہیں اور ڈالر کو 30 سے 40 روپیے پر لاکھڑا کیا۔
1996 سے 1999 تک میاں صاحب پھر اقتدار میں آئے اور ڈالر کو 40 سے 52 تک پہنچا دیا اور زوال کی صورت میں کامیابی کا سفر جاری اور ساری رکھا۔
جنرل مشرف 1999 سے 2007 تک اقتدار کا حصہ بنے مگر ڈالر کی قدر میں نمایاں کمی کرنے میں ناکام رہے ان کے دور میں ڈالر صرف 9 روپیے اضافے کیساتھ 52 روپیے سے 61 روپیے تک گیا۔
جنرل مشرف
پھر 2007 سے 2012 تک پیپلز پارٹی ایک دفعہ پھر حکومت میں آئی اور تاریخ میں پہلی دفعہ کسی سیاسی جماعت نے زرداری صاحب کی صدارت میں 5 سال مکمل کیے اور ڈالر کو 61 روپیہ سے 100 روپیے تک پہنچا دیا اور ساتھ ہی 1947 سے 2007 تک پاکستان نے جتنا قرضہ لیا تھا انہوں نے اپنے 5 سالہ دور میں اُس قرضے کو ڈبل کر کے پاکستان کی ترقی میں ایک ایسا بوسٹر دیا جو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی۔
آصف علی زرداری
زردری صاحب کے دور کے بعد میاں صاحب تیسری دفعہ اقتدار میں آئے اورملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ لیکر قوم کو کامیاب کر دیا اور ساتھ ہی ڈالر کو 120 تک کر کرکے ہمیں زوال میں کامیابی کے نئے راستوں پر گامزن کر دیا۔
عمران خان
شہباز شریف
جناب شہباز شریف پاکستان کے 23 ویں وزیر اعظم ہیں جو 11 اپریل 2022 کو عمران خان کے خلاف نو کانفیڈینش موشن کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم بنے آپ کے وزیر اعظم بنتے ہی ڈالر 186 سے 181 پر آگیا اور ایسا لگا کے شائد اب ڈالر مزید سستا ہو گا لیکن 21 اپریل کو ڈالر پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر چلا گیا اور اسکی قیمت 187 روپئے سے تجاوز کر گئی اور پھر رُکی نہیں اور صرف 55 دن کی شہباز شریف صاحب کی حکومت میں ڈالر 200 روپئے سے اوپر چلا گیا اور اگرچہ اس وقت مارکیٹ میں اس کی قیمت خرید 203 روپئے ہے مگر 208 میں بھی مارکیٹ میں مل نہیں رہا۔ آگے آنے والے دنوں میں ڈالر مزید مہنگا ہوتا دیکھائی دے رہا ہے اور لگ رہا ہے کے جناب شہباز شریف کے دور میں ڈالر ٹرپل سنچری مکمل کر لے گا۔
Feature Image Preview Credit: Walikhanphotography, CC BY-SA 4.0, via Wikimedia Common andShehbaz Sharif, CC BY 2.0, via Wikimedia Commons