کسی قریبی عزیز یا رشتہ دار کا دُنیا سے چلے جانا ہمیشہ تکلیف دہ ہی ہوتا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ ایسے موقع پر دل کی کیا حالت ہوتی ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم کسی کو اُس کے مقررہ وقت سے زیادہ دُنیا میں روک نہیں سکتے۔
ہمارے آس پاس روزانہ بہت سے لوگ دُنیا سے رخصت ہوتے ہیں جن سے یا جن کہ پیاروں سے ہمارا رشتہ ہوتا ہے اور ہمیں تعزیت کے لیے جانا پڑتا ہے مگر تعزیت کے لیے ہمیں کیا الفاظ استعمال کرنے ہیں اور کیا نہیں اس بات کا شعور ہونا بہت ضروری ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ایسے کسی بھی موقع پر الفاظ زخم بھر نہیں سکتے مگر غلط الفاظ مرنے والے سے محبت کرنے والوں کی تکلیف میں اضافہ ضرور کر دیتے ہیں لہذا ہمیں اپنے تعزیتی الفاظ کو خُوب سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے اور اس آرٹیکل میں ہم پانچ ایسے الفاظ شامل کر رہے ہیں جو ہمیں تعزیت کرتے ہُوئے ہرگز استعمال نہیں کرنے چاہیے۔
نمبر 1 حوصلہ کرو دلیر بنو اور صبر کرو
کسی محبت کرنے والے کے دُنیا سے چلے جانے پر دل جب ٹُوٹا ہوتا ہے تو ایسے دل سے سخت ہونے حوصلہ کرنے یا دلیر بننے کی بات کرنا اچھی بات نہیں ہے اور ایسے الفاظ بے معنی ہوتے ہیں اور ایسے موقع پر سخت بننے کی تلقین کرنے کی بجائے یہ کہنا کہ "مُجھے پتہ ہے کہ یہ بہت تکلیف دہ ہے اور میں آپ کے ساتھ آپ کہ دُکھ میں شامل ہونے آیا ہوں” یا ” آپکے اس دل توڑ دینے والے غم میں میں بھی شامل ہوں” کہنا زیادہ اچھی بات ہے۔
نمبر 2 تکلیف سے نجات مل گئی
عام طور پر تعزیت کرنے یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ جانے والے کو تکلیف سے نجات مل گئی یا شکر ہے چلتا پھرتا چلا گیا وغیرہ، ایسے الفاظ محبت کرنے والوں کی سماعتوں پر بھاری ہوتے ہیں اور نہیں بولنے چاہیے اور ایسے موقع پر ضروری نہیں ہے کہ آپ اپنی دانائی کا اظہار کریں اور فرمائیں کے دُنیا میں جس نے بھی آنا ہے ایک دن جانا ہے لہذا صبر کرو وغیرہ ۔
تعزیت کرتے ہُوئے کسی کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر دینا یا گلے لگا کر خاموشی سے پیٹھ پر ہاتھ پھیر دینا ہی کافی ہوتا ہے اور اگر کُچھ کہنا ہی ہو تو یہ کہہ دینا کہ میرے پاس اس غم کے مداوے کے لیے الفاظ نہیں ہیں زیادہ اچھی بات ہے۔
نمبر 3 کسی چیز کی ضرورت ہو تو مُجھے ضرور بتانا
ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ایسی دعوت دینے والے یہ بات دل سے نہیں کر رہے ہوتے اور بس اجازت چاہ رہے ہوتے ہیں اس لیے ایسے الفاظ مناسب نہیں ہیں اور غم میں ڈوبے ہُوئے کو تو عام طور پر یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ اُسے کس چیز کی ضرورت ہے۔
اس جملے سے ملتا جُلتا ایک اور جُملہ ” میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتانا” بھی اسی معنی میں آتا ہے اور لوگ ایسے الفاظ اجازت لینے کے لیے بولتے ہیں اور اس بات سے ناآشنا ہوتے ہیں کہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ ہم سے مدد کی درخواست کریں اور خُودار لوگ ایسا کبھی بھی نہیں کرتے چاہے وہ غم میں ہوں اس لیے ایسے الفاظ نہیں بولنے چاہیے اور انکی جگہ یہ دعوت دینا کہ میں شام کو تمہیں لینے آؤں گا اور ہم اکھٹے کھانا کھائیں گے زیادہ خوبصورت انداز ہے۔
نمبر 4 کیا حال ہے یا کیسے ہو
یہ وہ الفاظ ہیں جن کے جواب میں عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ میں ٹھیک ہوں یا فائن یا شُکر ہے وغیرہ اور یہ الفاظ تعزیت پر بولنا بلکل بھی مناسب نہیں ہیں اور ان الفاظ سےاندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ بس خانہ پُری کرنے کےلیے وہاں موجود ہیں اور بس۔
ایسی بات کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ آپ سلام کر کے خاموش بیٹھ جائیں اور اللہ سے مرنے والے کی بخشش کی دُعا دل میں کریں اور لواحقین کے لیے صبر کی دُعا کریں۔
نمبر 5 لواحقین سے پُوچھنا کے کیا ہُوا تھا
یہ وہ عام سوال ہے جو ہر تعزیت کرنے والا عام طور پر کر بیٹھتا ہے کہ مرحوم کو کیا بیماری تھی اور کیسے فوت ہُوئے اور غم میں ڈوبا مرحوم سے محبت کرنے والا یہ تکلیف دہ کہانی آپ کو سُناتا ہے جس سے اُس کا دل پھر کُچلا جاتا ہے لہذا یہ بات لواحقین سے ہرگز نہیں پوُچھنی چاہیے اور بہتر ہے کہ اگر آپ جاننا ہی چاہتے ہیں تو کسی ایسے آدمی سے یہ سوال کریں جس کا رشتہ مرحوم سے زیادہ محبت والا نہ ہو جیسے پڑوسی وغیرہ۔
تعزیت کرنے کا مقصد ہمدردی کا اظہار کرنا ہوتا ہے اور اس بات کا اظہار کرنا ہوتا ہے کہ آپ بھی غم میں شامل ہیں اور دُکھ کی اس گھڑی میں لواحقین تنہا نہیں ہیں اور آپ کی وہاں موجودگی اُنہیں اس بات کا یقین دلاتی ہے اس لیے کوشش کریں کہ موجود رہیں اورایسے موقع پر بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جیسے مہمانوں کی آمد کا بندوبست وغیرہ خود کریں اور غم میں ڈوبے ہُوؤں کو ایسے موقع پر ان کاموں سے بچائیں اور ہرگز ہرگز ایسےموقع پر ہنسی مذاق نہ کریں ۔
نوٹ: بیشک ہم اللہ کہ لیے ہی ہیں اور ہمیں اُسی کی طرف لوٹ کر واپس جانا ہے۔
Featured Image Preview Credit:Fars News Agency [CC BY 4.0], via Wikimedia Commons, The Image has been resized