اگر بچے میں قوت فیصلہ اور خود اعتمادی کی کمی ہے تو یہ نشانی ہو سکتی ہے کہ بچے کے والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں منشیات استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ ایسے والدین عام طور پر اپنی غلطی کبھی نہیں مانتے اور اپنی غلطی کا الزام دُوسروں پر لگا دیتے ہیں اور اگر بچہ وہ کام نہ کرے جو اسے کرنا چاہیے تو یہ والدین بچے کو بہت بُری طرح سمجھاتے ہیں جس سے بچہ خوفزدہ ہو جاتا ہے۔
اس آرٹیکل میں ہم 8 ایسی نشانیوں کو شامل کر رہے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بچے کی پرورش کرنے والے نشے کے عادی ہیں جس کی وجہ سے بچے کی شخصیت متاثر ہو رہی ہے۔
نمبر 1 کبھی بہت اچھا محسوس نہ کرنا
ایسے والدین جو منشیات کا استعمال کرتے ہوں ہمیشہ اپنی ذات کو فوقیت دیتے ہیں اور گھریلو ماحول میں بچوں کو ایسی کوئی حرکت کرنے کی اجازت نہیں دیتے جن سے ان کو خود کوئی کام کرنا پڑ جائے ایسے موقع پر اگر بچہ والدین کی ہر خواہش کو پُورا کرے تب والدین اُس سے پیار کرتے ہیں اور بصورت دیگر بچے کی درگت بنا دی جاتی ہے۔ یہ والدین اپنے بچوں پر اکثر تنقید بھی جاری رکھتے ہیں کیونکہ اُن کے خیال کے مطابق بچے کبھی بھی اُن کے معیار پر پُورا نہیں اترتے اور پھر بیجا تنقید اور ڈانٹ ڈپٹ ایسے بچوں کے ذہن میں بیٹھ جاتا ہے اور جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو بچپن کی محسوسات ان کے سماجی تعلقات کو متاثر کرتی ہیں اور ان میں خود اعتمادی کا فقدان پیدا کر دیتی ہیں۔
نمبر 2 اپنی رائے دینے سے خوفزدہ
یہ والدین بچوں کو رائے دینے کی اجازت نہیں دیتے اور اگر کبھی وہ رائے دیں اور وہ رائے والدین کی سوچ کے مطابق نہ ہو تو بچوں کو اُن کے غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں سزا بھی ملتی ہے۔ اور رائے دینے کا یہ خوف بچے کے دماغ میں بیٹھ جاتا ہے اور جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اُسے دوسروں کے سامنے بولنے یا تقریر کرنے یا اپنا موقف بیان کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔
نمبر 3 تعلقات میں خرابی
ایسے بچے جب پروان چڑھ جاتے ہیں تو یہ تعلقات سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہو پاتے۔ جیسے دوستوں کے درمیان یا فیملی میں کزنز کیساتھ یا شادی کے بعد۔ ایسے بچوں میں ایک زہر بڑے ہونے تک پلتا ہے اور پھر ان کے تعلقات کو متاثر کرتا ہے۔
نمبر 4 خود مختار نہ ہو پانا
ایسے والدین اپنے بچوں کو کوئی فیصلہ بھی خود سے نہیں کرنے دیتے۔ وہ ان کے لیے لی گئی ہر چیز میں اپنی رائے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں اور بچوں کی خواہشات کو ترجیح نہیں دیتے۔ ایسے بچے بڑے ہو کر بھی کوئی فیصلہ خود کرتے ہُوئے ڈرتے ہیں اور اس وجہ سے زیادہ تر یہ بچے معاشرے میں خود مختار نہیں ہو پاتے۔
نمبر 5 انہیں کیا چاہیے
ان بچوں کو پتہ نہیں ہوتا کے اُن کا انٹرسٹ کہاں ہے اور وہ زندگی میں کیا بننا چاہتے ہیں۔ ان سے اگر پُوچھا جائے تو یہ عام طور پر والدین کی بتائی ہُوئی بات بول دیتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر یا انجنیر بننا چاہتے ہیں اور پھر بڑے ہو کر یہ اپنے لیے دل پسند کام ڈھونڈنے میں ناکام رہتے ہیں اور جو کام انہیں ملتا ہے اُسے مستقل کرنے میں ان کا دل نہیں لگتا جس سے انکی صحت خراب ہو جاتی ہے۔
نمبر 6 دماغی بیماریاں
ایسے بچوں میں ذہنی اور اعصابی تناؤ بچپن سے ہی پیدا ہونا شروع کر دیتا ہے اور جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے ہیں یہ بیماری انہیں شدت سے گھیرتی ہے اور اس بیماری سے کئی اور دماغی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جن میں بھولنے کی بیماری، قوت فیصلہ میں کمزوری اور دماغ کا بروقت کام نہ کرنا وغیرہ شامل ہے۔
نمبر 7 استعمال ہو جانا
ایسے بچے جب بلوغت کو پہنچتے ہیں تو ان کے چالاک ساتھی انہیں اپنے لیے استعمال کر لیتے ہیں اور چونکہ یہ ہمیشہ والدین کو اُن کی خواہشات کے مطابق خوش رکھنے کی کوشش کرتے رہے ہوتے ہیں تاکہ انہیں والدین کی ستائش ملے چنانچہ یہ ایسے افراد کا کہا گیا ہر کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں۔
نمبر8 خود کو کوسنا
خود کو کوسنا بھی ایک ذہنی بیماری ہے جسے منشیات استعمال کرنے والے اپنے بچوں میں داخل کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر شیشے کا گلاس باپ سے یا ماں سے ٹوٹا ہے اور بچہ پاس کھڑا ہے تو یہ فوری طور پر قصور وار بچے کو گردانیں گے اور ایسے بچے نفسیاتی طور پر ہر غلطی کا ذمہ دار خود کو سمجھنے لگ جاتے ہیں اور بڑے ہونے کے بعد یہ بیماری انہیں باقی لوگوں کی ریس سے بہت پیچھے لیجاتی ہے۔