کوہ قراقرم کا سب سے اُونچا اور دُنیا کا دُوسرا بُلند ترین پہاڑ K2 1856 میں برطانوی جیوگرافر کرنل مونٹگمری نے دریافت کیا اور اس کا نام کے ٹو رکھا کیونکہ یہ قراقرم سلسے کا دُوسرا پہاڑ تھا جس کی اُونچائی ناپی گئی تھی اور وہاں کی مُقامی بلتی زُبان میں اسکا نام شاہگوری ہے اور یہ پہاڑ پاکستان اور چین کا مُشترکہ سب سے اونچا پہاڑ ہے جس کی اُونچائی 8611 میٹر ہے۔
کے ٹُو کو پہاڑوں کا پہاڑ، پہاڑوں کا بادشاہ اور کوہ پیماؤں کا پہاڑ بھی کہا جاتا ہے اور اپنے بیس کیمپ سے یہ تقریباً 4570 میٹر اونچا ہے جس پر چڑھنے کی سب سے پہلی کوشش 1902 میں اینگلو سوئس کوہ پیماؤں نے کی اور وہ 5670 میٹر تک اس پہاڑ پر چڑھ سکے یعنی بیس کیمپ سے 1100 میٹر۔
دُوسری ناکام کوشش 1909 میں ہُوئی اوراطالوی کوہ پیما 6100 میٹر تک اس پہاڑ کو سر کر سکے پھر 1938 میں امریکی کوہ پیما 7925 میٹر تک کی اُونچائی چھونے کے بعد ناکام واپس لوٹے، 1939 میں ایک اور امریکی ٹیم 8380 میٹر تک جا پائی مگر پھر اُسے بھی ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑا ۔
1953 میں ایک اور امریکی ٹیم نے 7900 میٹر تک اس پہاڑ پر چرھنے کی کوشش کی اور واپسی پر ٹیم کے ایک رُکن جارج بیل نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ ” کے ٹُو ایک وحشی پہاڑ ہے جو آپکو مارنے کی کوشش کرتا ہے” اور آج تک اس پہاڑ پر جتنے لوگوں نے چڑھنے کی کوشش کی ہے اُن ہر 4 میں سے 1 کی جان اس پہاڑ نے لے لی ہے، پھر 1954 میں اطالوی کوہ پیماؤں نے پاکستانی پورٹرز اور آرمی کی مدد سے پہلی دفعہ اس پہاڑ کو کامیابی سے سر کیا۔
کے ٹُو پر پہلا حادثہ 1939 میں ہُوا جب امریکی ٹیم کے 3 افراد اچانک لاپتہ ہوگئے اور ایک فرد بُلندی برداشت نہ کر پایا اور ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہوگیا اور واپس نہ آسکا، دُوسرا حادثہ 1954 میں آرٹ گلکی کے ساتھ پیش آیا اور اُسے ایک ایوالانچ نے مار ڈالا اور 1954 میں اطالوی نژاد ماریو پوچوز چڑھائی کے دوران نمونیا ہو جانے کے باعث جابحق ہُوئے اور یُوں یہ سلسلہ چل نکلا۔
کے ٹُو کی تاریخ کا پہلا بڑا حادثہ 1986 میں پیش آیا جب اس پہاڑ نے ایک ہی سال میں مختلف ٹیموں کے 13 افراد کو نگل لیا ، 1995 میں 8 افراد، 2004 میں 7، 2006 میں 4 اور 2008 میں ایک ہی دن 11 افراد چڑھائی کے دوران گرنے سے لقمہ اجل بن گئے اور پہاڑ کے دامن میں دفن ہوگئے۔
اس سال 2021 میں کے ٹُو کو سردی کے موسم میں سر کرنے کے دوران پہلا حادثہ 16 جنوری کو پیش آیا جب سپین کے کوہ پیما سرجی مینگوٹے بیس کیمپ ون سے نیچے اُترتے ہُوئے گر گئے اور جاں بحق ہُوئے اور پھر 5 فروری کو پہلا حادثہ بلغاریہ کے اتانس سکاٹوؤ کے ساتھ پیش آیا جب وہ بیس کیمپ 3 سے نیچے آتے ہُوئے گر گئے اور پھر 5 فروری کو ہی ایک دُوسری ٹیم کے 3 افراد جن میں پاکسانی کوہ پیما اور پورٹر مُحمد علی صدپارہ، جان سنوری اور جے پی موہر شامل تھے کے ٹُو سے واپسی پر لاپتہ ہوگئے اور ابھی تک لاپتہ ہیں۔
کے ٹُو پر جاں بحق ہونے والے افراد عام طور پر اسی پہاڑ کے دامن میں گُم ہوجاتے ہیں اور برف اُنہیں اپنے نیچے چُھپا لیتی ہے اور ریسکیو ٹیم کے افراد اُنہیں کبھی نہیں دُھونڈ پائے یُوں یہ پہاڑ ایک قبرستان ہے جس میں 100 کے قریب افراد دفن ہیں اور ان افراد کی یاد میں کے ٹُو کے بیس کیمپ پر ایک مونومینٹ بنایا گیا ہے جسکے اوپر ان سب کے نام نقش ہیں۔
Featured Image Preview Credit: Adha65, CC BY-SA 3.0, via Wikimedia Commons